December Mujhe Ras Aata Nahi: A Poetic Dip into Year's End Melancholy
As December's crisp air settles and the year prepares to turn the page, a familiar pang of bittersweetness often sets in. It's a feeling captured beautifully by the legendary Urdu poet Mohsin Naqvi in his poignant poem, "December Mujhe Ras Aata Nahi."
Naqvi, a master of weaving emotions into words, paints a vivid picture of a December that brings no joy. He describes the month as a "thief of dreams," silently stealing away aspirations and leaving behind a trail of unfulfilled promises. The festive cheer around him rings hollow, failing to drown out the echo of past disappointments and missed opportunities.
The poem's power lies in its raw honesty. It shuns the romanticized image of December as a season of merriment and embraces the melancholic truth that year's end can be a time of introspection and quiet sorrow. Naqvi's words resonate with anyone who has ever felt the weight of time passing, the sting of dreams unachieved, and the bittersweet ache of nostalgia.
But "December Mujhe Ras Aata Nahi" isn't just about dwelling on the past. It's also a poem of acceptance and resilience. Naqvi acknowledges the darkness but ultimately finds solace in the simple beauty of existence. He speaks of the moon casting its silver light, the stars twinkling like scattered diamonds, and the gentle rustle of leaves whispering secrets in the wind. These small moments of quietude offer a sense of peace and remind us that even in the midst of darkness, there is beauty to be found.
Reading "December Mujhe Ras Aata Nahi" is a cathartic experience. It allows us to acknowledge our sadness, validate our anxieties, and find solace in the shared human experience. It reminds us that the end of one year is not an ending, but rather a pause, a moment to reflect and gather strength for the journey ahead.
So, this December, as you navigate the festive cheer and the year-end blues, take a moment to delve into the poignant world of Mohsin Naqvi's poem. Let it wash over you, let it resonate with your own emotions, and allow it to guide you towards a deeper understanding of yourself and the cyclical nature of time.
Remember, December may not always "taste" good, but the bittersweetness it brings can be a catalyst for growth, acceptance, and ultimately, a renewed sense of hope for the year to come.
اردو شاعری
سال کے اختتام کی اداسی
خود شناسی، قبولیت، لچک، اندھیری میں خوبصورتی
Video
دسمبر مجھے راس آتا نہیں: سال کے اختتام کی اداسی میں ایک شعری غوطہ
دسمبر کی ٹھنڈی ہوا جب ہمارے ارد گرد چھا جاتی ہے اور سال صفحہ پلٹنے کی تیاری کرتا ہے، تو اکثر ہمارے دل میں ایک آشنا سی تلخ لذتی کیفیت ابھرتی ہے۔ یہ وہی احساس ہے جسے اردو کے نامور شاعر محسن نقوی نے اپنی درد انگیز نظم "دسمبر مجھے راس آتا نہیں" میں خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
نقوی، جو جذبات کو الفاظ میں پرونے کے فن میں ماہر ہیں، ایسے دسمبر کی ایک واضح تصویر پیش کرتے ہیں جو کوئی خوشی نہیں لاتا۔ وہ مہینے کو "خوابوں کا چور" کہتے ہیں، جو خاموشی سے آرزوئوں کو چھین لیتا ہے اور پچھلے وعدوں کی تشنگی چھوڑ جاتا ہے۔ اس کے اردگرد جشن کا سماں بے معنیٰ ہو جاتا ہے، اور ماضی کی ناکامیوں اور چھوٹے مواقع کے گونج کو ڈبا نہیں سکتا۔
نظم کی طاقت اس کی صاف گوئی میں ہے۔ یہ دسمبر کے رومانٹک تصور کو مسترد کرتی ہے اور اس سال کے اختتام کو ایک ایسے وقت کے طور پر قبول کرتی ہے جو خود شناسی اور خاموش غم کا وقت ہے۔ نقوی کے الفاظ ان لوگوں کے ساتھ گونجتے ہیں جنہوں نے کبھی گزرے ہوئے وقت کے بوجھ، ناکام خوابوں کے درد، اور یادوں کی مٹھاس کا احساس محسوس کیا ہے۔
لیکن "دسمبر مجھے راس آتا نہیں" صرف ماضی پر گہری نگاہ نہیں ڈالتا۔ یہ قبولیت اور لچک کا بھی ایک شعر ہے۔ نقوی تاریکی کو تسلیم کرتے ہیں لیکن آخر میں وجود کی سادہ خوبصورتی میں تسلی تلاش کرتے ہیں۔ وہ چاند کی چاندی چمکتی روشنی، بکھرے ہیرے کی طرح ٹمٹماتے ستاروں اور ہوا میں رازوں کی گونج سنا کر پتے کی نرم سرسراہٹ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ خاموشی کے چھوٹے لمحات سکون کا احساس دلاتے ہیں اور ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اندھیری کے درمیان بھی خوبصورتی پائی جا سکتی ہے۔
"دسمبر مجھے راس آتا نہیں" پڑھنا ایک تصفیاتی تجربہ ہے۔ یہ ہمیں اپنے غم کو تسلیم کرنے، اپنی پریشانیوں کی توثیق کرنے، اور مشترک انسانی تجربے میں تسلی تلاش کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایک سال کا اختتام ختم نہیں ہے، بلکہ ایک وقفہ ہے، غور کرنے اور آگے کے سفر کے لیے طاقت اکٹھا کرنے کا لمحہ ہے۔
لہذا، اس دسمبر، جب آپ جشن کے ہجوم اور سال کے اختتام کی پریشانیوں سے گزرتے ہیں، تو محسن نقوی کی نظم کی درد انگیز دنیا میں غوطہ لگانے کے لیے ایک لمحہ نکالیں۔ اسے اپنے اندر سمائیں، اسے اپنے جذبات سے ہم آواز ہونے دیں، اور اسے آپ کو اپنے اور وقت کے دائرے کے بارے میں ایک گہری سمجھ کی طرف راہنمائی کرنے دیں۔
یاد رکھیں، دسمبر ہمیشہ "اچھا" نہیں لگتا ہو گا، لیکن یہ جو تلخ لذتی کیفیت لاتا ہے وہ ترقی، قبولیت، اور آخر میں، آنے والے سال کے لیے امید کی تجدید کا باعث بن سکتی ہے۔
ٹیگز: #اردو ادب #شاعری #دسمبربلیوز #نیا سال #تعقل #قبولیت #امید #اردوشاعر #محسننقوی فین
Tags: #urduliterature #poetry #decemberblues #newyearseve #reflection #acceptance #hope #urdupoet #mohsinnaqvifan
0 Comments